@barbarapuryear: #CapCut #realsistersoftiktok🍇

Barbara Puryear
Barbara Puryear
Open In TikTok:
Region: US
Friday 03 October 2025 15:57:45 GMT
46
10
1
0

Music

Download

Comments

vincent.jackson8
Vincent Jackson :
🥰🥰🥰🥰🥰🥰
2025-10-03 16:25:26
1
To see more videos from user @barbarapuryear, please go to the Tikwm homepage.

Other Videos

مرنے  کے بعد خواجہ سرا کا اپنی ماں کو خط Author: لینہ حاشر ماں جی میری عمر نو دس برس کی تھی جب ابا نے مجھے زمین پر گھسیٹتے ہوئے گھر سے بے گھرکر دیا تھا۔ میں چیخ چیخ کر تمہیں پکارتا رہا مگر تم بےحس وحرکت سہمی ہوئی مجھے تکتی رہیں۔ واحد روانی تمہارے آنسوؤں کی تھی جو ابا کے غیظ و غضب کے آگے بھی تھمنے کو تیار نہ تھے۔ تمہارا ہر آنسو اس بات کا ثبوت تھا کہ تم ابا کے اس فعل سے بہت نالاں تھی مگر ابا کی ہر بات پر سر تسلیم خم کرنے پر مجبور بھی۔ محلے والوں کے طعنے، رشتے داروں کے طنز اور لوگوں کی چبھتی ہوئی نگاہوں سے جب ابا بے قابو ہو جاتے تو پھر اپنی کالے چمڑے کی چپل سے میری چمڑی ادھیڑتے۔ اپنے جسم پر چپل سے بنائے گئے نقش لیے میں اس کال کوٹھڑی کی جانب بھاگتا جو پورے گھر میں میری واحد پناہ گاہ بن گئی تھی۔ پٹائی کا دن جب رات میں ڈھلتا تو تم ابا سے چھپ کر دبے پاؤں آتیں۔ مجھے سینے سے لگاتی، اپنے دوپٹے سے میرے زخموں کی ٹکور کرتی۔ میرا سر اپنی گود میں لیے گھنٹوں میرے پاس بیٹھی رہتی۔ مجھے چپ کراتے کراتے تمہاری اپنی سسکیاں بندھ جاتیں۔ آہوں اور سسکیوں کی گونج کے علاوہ اس کال کوٹھڑی میں کچھ سنائی نہ دیتا۔ ہم دونوں آنسوؤں کی زبان میں بات کرتے۔ میرے آنسوؤں میں ان گنت سوال ہوتے۔ کہ آخر کیوں ابا کی نفرت کی خاص عنایت مجھ پر ہی ہے؟ آخر کیوں گھر میں مہمانوں کے آتے ہی اسٹور کے تنگ وتاریک کمرے میں گھر کے ہر فالتو سامان کے ساتھ مجھے بند کردیا جاتا ہے اور جب تک اللہ کی رحمت ہمارے گھر سے چلی نہیں جاتی مجھے رہائی کا پروانہ کیوں نہیں دیا جاتا۔ یہ رحمت ہر بار میرے لیے زحمت کیوں بن جاتی ہے؟ مگر اماں میرے ہر سوال کے جواب میں تم خاموشی سے میرے اوپر محبت بھری نگاہ ڈالتی اور کچھ نہ بولتیں۔ بس کبھی تم میرے ماتھے کا بوسہ لیتی اور کبھی میرے ہاتھوں کو چوم کر اس بات کی گواہی دیتی کہ میں تو اپنے راجہ بیٹے سے بہت پیار کرتی ہوں۔ ایک سوال کرتے کرتے میں تھک جاتا اور نیند کی آغوش میں چلا جاتا کہ آخر میرے سے ایسی کیا خطا ہوئی جو میں اپنے دوسرے بہن بھائیوں کی طرح ابا کے پیار کا حقدار نہیں۔ ہاں تمہاری گود میں سو جانے سے پہلے میں یہ دعا بھی کرتا کہ یہ رات کبھی ختم نہ ہو مگر صبح ہوتی اور تم پھر اس عورت کا لبادہ اوڑھ لیتی جو ابا اور معاشرے کے خوف سے مجھے پیار کرتے ڈرتی تھی۔ جس دن ابا نے مجھے گھر سے نکالا اس دن میرا قصور بس اتنا تھا کہ میں نے تمہاری سنگھار میز پر رکھی ہوئی لالی سے اپنے ہونٹ رنگ لیے تھے، تمہارا سرخ دوپٹہ سر پر رکھے، تمہارے ہاتھوں کے کنگن اپنی کلائی میں ڈالے تمہاری ٹک ٹک کرنے والی جوتی پہن کرخوش ہو رہا تھا، بس یہ دیکھنے کی دیر تھی کہ ابا نے مجھ پر پھر جوتوں کی برسات شروع کر دی۔ میں معافی کا طلب گار رہا مگر میری شنوائی نہ ہوئی اور پھرگالی گلوچ کرتے ہوئے زمین پر گھسیٹتے ہوئے زنخا زنخا کہتے ہوئے مجھے ہمیشہ کے لیے سب گھر والوں سے دور کر دیا۔ میرے لیے آبا کے آخری الفاظ یہ تھے کہ آج سے تو ہمارے لیے مر گیا۔ یہ جملہ سنتے ہی میری ہاتھوں کی گرفت جس نے ابا کے پیروں کو مضبوطی سے پکڑا ہوا تھا کمزور پڑ گی۔ میری گڑگڑاتی ہوئی زبان خاموش ہوگی، میرے آنسو تھم گئے کیونکہ میں جانتا تھا کہ ابا اپنی کہی ہوئی بات سے کبھی نہیں پھرتے۔ اور تم ماں، ابا کے کسی بھی فیصلے کے خلاف جانے کی ہمت نہیں رکھتی اس کے بعد ابا مجھے ہمیشہ کے لیے یہاں چھوڑ گے جہاں ایک گرو رہتا تھا۔ امجد کی جگہ میرا نام علیشاہ رکھ دیا گیا۔ مجھے ناچ گانےکی تربیت دی جاتی۔ مجھ پر نظر رکھی جاتی لیکن میں جب کبھی موقع ملتا تمہاری محبت میں گرفتار اپنے گھر کی طرف دیوانہ وار بھاگتا مگر ابا کا آخری جملہ مجھے دہلیز پار کرنے سے روک دیتا۔ دروازے کی اوٹ سے جب تمہیں گرما گرم روٹی اتارتے دیکھتا تو میری بھوک بھی چمک جاتی اور پھر تم اپنے ہاتھوں سے نوالے بنا بنا کر میرے بہن بھائیوں کے منہ میں ڈالتی تو ہر نوالے پر میرا بھی منہ کھلتا مگر وہ نوالے کی حسرت میں کھلا ہی رہتا۔ اس حسرت کو پورا کرنے کے لیے میں اکثر گھر کے باہر رکھی ہوئی سوکھی روٹی کو اپنے آنسوؤں میں بھگو بھگو کر کھاتا۔ بعد کی عیدیں تو تنہا ہی تھیں پر جب گھر بدر نہ ہوا تھا تب بھی عید پر جب ابا ہر ایک کے ہاتھ پر عیدی رکھتے تو میرا ہاتھ پھیلا ہی رہ جاتا۔ جب ہر بچے کی جھولی پیار اور محبت سے بھر دی جاتی تو میری جھولی خالی ہی رہ جاتی۔ جب ابا اپنا دست شفقت سب کے سروں پر پھیرتے تو میرا سر جھکا ہی رہتا۔ صحن میں کھڑی ابا کی سائیکل جس کو اکثر میں محلے سے گزرتے دیکھتا تو ہر بار دل میں یہ خواہش ہوتی کہ کاش ابا سائیکل روک کر مجھے ایک بار، صرف ایک بار سینے سے لگا لیں مگر میری یہ خواہش، خواہش ہی رہ گی۔ گھر چھوڑنے کے عذاب کے بعد میرے اوپر ایک اور عذاب نازل ہوا جس کے کرب نے میری روح تک کو زخمی کر دیا۔ چند \’شرفا\’ گرو کے پ
مرنے کے بعد خواجہ سرا کا اپنی ماں کو خط Author: لینہ حاشر ماں جی میری عمر نو دس برس کی تھی جب ابا نے مجھے زمین پر گھسیٹتے ہوئے گھر سے بے گھرکر دیا تھا۔ میں چیخ چیخ کر تمہیں پکارتا رہا مگر تم بےحس وحرکت سہمی ہوئی مجھے تکتی رہیں۔ واحد روانی تمہارے آنسوؤں کی تھی جو ابا کے غیظ و غضب کے آگے بھی تھمنے کو تیار نہ تھے۔ تمہارا ہر آنسو اس بات کا ثبوت تھا کہ تم ابا کے اس فعل سے بہت نالاں تھی مگر ابا کی ہر بات پر سر تسلیم خم کرنے پر مجبور بھی۔ محلے والوں کے طعنے، رشتے داروں کے طنز اور لوگوں کی چبھتی ہوئی نگاہوں سے جب ابا بے قابو ہو جاتے تو پھر اپنی کالے چمڑے کی چپل سے میری چمڑی ادھیڑتے۔ اپنے جسم پر چپل سے بنائے گئے نقش لیے میں اس کال کوٹھڑی کی جانب بھاگتا جو پورے گھر میں میری واحد پناہ گاہ بن گئی تھی۔ پٹائی کا دن جب رات میں ڈھلتا تو تم ابا سے چھپ کر دبے پاؤں آتیں۔ مجھے سینے سے لگاتی، اپنے دوپٹے سے میرے زخموں کی ٹکور کرتی۔ میرا سر اپنی گود میں لیے گھنٹوں میرے پاس بیٹھی رہتی۔ مجھے چپ کراتے کراتے تمہاری اپنی سسکیاں بندھ جاتیں۔ آہوں اور سسکیوں کی گونج کے علاوہ اس کال کوٹھڑی میں کچھ سنائی نہ دیتا۔ ہم دونوں آنسوؤں کی زبان میں بات کرتے۔ میرے آنسوؤں میں ان گنت سوال ہوتے۔ کہ آخر کیوں ابا کی نفرت کی خاص عنایت مجھ پر ہی ہے؟ آخر کیوں گھر میں مہمانوں کے آتے ہی اسٹور کے تنگ وتاریک کمرے میں گھر کے ہر فالتو سامان کے ساتھ مجھے بند کردیا جاتا ہے اور جب تک اللہ کی رحمت ہمارے گھر سے چلی نہیں جاتی مجھے رہائی کا پروانہ کیوں نہیں دیا جاتا۔ یہ رحمت ہر بار میرے لیے زحمت کیوں بن جاتی ہے؟ مگر اماں میرے ہر سوال کے جواب میں تم خاموشی سے میرے اوپر محبت بھری نگاہ ڈالتی اور کچھ نہ بولتیں۔ بس کبھی تم میرے ماتھے کا بوسہ لیتی اور کبھی میرے ہاتھوں کو چوم کر اس بات کی گواہی دیتی کہ میں تو اپنے راجہ بیٹے سے بہت پیار کرتی ہوں۔ ایک سوال کرتے کرتے میں تھک جاتا اور نیند کی آغوش میں چلا جاتا کہ آخر میرے سے ایسی کیا خطا ہوئی جو میں اپنے دوسرے بہن بھائیوں کی طرح ابا کے پیار کا حقدار نہیں۔ ہاں تمہاری گود میں سو جانے سے پہلے میں یہ دعا بھی کرتا کہ یہ رات کبھی ختم نہ ہو مگر صبح ہوتی اور تم پھر اس عورت کا لبادہ اوڑھ لیتی جو ابا اور معاشرے کے خوف سے مجھے پیار کرتے ڈرتی تھی۔ جس دن ابا نے مجھے گھر سے نکالا اس دن میرا قصور بس اتنا تھا کہ میں نے تمہاری سنگھار میز پر رکھی ہوئی لالی سے اپنے ہونٹ رنگ لیے تھے، تمہارا سرخ دوپٹہ سر پر رکھے، تمہارے ہاتھوں کے کنگن اپنی کلائی میں ڈالے تمہاری ٹک ٹک کرنے والی جوتی پہن کرخوش ہو رہا تھا، بس یہ دیکھنے کی دیر تھی کہ ابا نے مجھ پر پھر جوتوں کی برسات شروع کر دی۔ میں معافی کا طلب گار رہا مگر میری شنوائی نہ ہوئی اور پھرگالی گلوچ کرتے ہوئے زمین پر گھسیٹتے ہوئے زنخا زنخا کہتے ہوئے مجھے ہمیشہ کے لیے سب گھر والوں سے دور کر دیا۔ میرے لیے آبا کے آخری الفاظ یہ تھے کہ آج سے تو ہمارے لیے مر گیا۔ یہ جملہ سنتے ہی میری ہاتھوں کی گرفت جس نے ابا کے پیروں کو مضبوطی سے پکڑا ہوا تھا کمزور پڑ گی۔ میری گڑگڑاتی ہوئی زبان خاموش ہوگی، میرے آنسو تھم گئے کیونکہ میں جانتا تھا کہ ابا اپنی کہی ہوئی بات سے کبھی نہیں پھرتے۔ اور تم ماں، ابا کے کسی بھی فیصلے کے خلاف جانے کی ہمت نہیں رکھتی اس کے بعد ابا مجھے ہمیشہ کے لیے یہاں چھوڑ گے جہاں ایک گرو رہتا تھا۔ امجد کی جگہ میرا نام علیشاہ رکھ دیا گیا۔ مجھے ناچ گانےکی تربیت دی جاتی۔ مجھ پر نظر رکھی جاتی لیکن میں جب کبھی موقع ملتا تمہاری محبت میں گرفتار اپنے گھر کی طرف دیوانہ وار بھاگتا مگر ابا کا آخری جملہ مجھے دہلیز پار کرنے سے روک دیتا۔ دروازے کی اوٹ سے جب تمہیں گرما گرم روٹی اتارتے دیکھتا تو میری بھوک بھی چمک جاتی اور پھر تم اپنے ہاتھوں سے نوالے بنا بنا کر میرے بہن بھائیوں کے منہ میں ڈالتی تو ہر نوالے پر میرا بھی منہ کھلتا مگر وہ نوالے کی حسرت میں کھلا ہی رہتا۔ اس حسرت کو پورا کرنے کے لیے میں اکثر گھر کے باہر رکھی ہوئی سوکھی روٹی کو اپنے آنسوؤں میں بھگو بھگو کر کھاتا۔ بعد کی عیدیں تو تنہا ہی تھیں پر جب گھر بدر نہ ہوا تھا تب بھی عید پر جب ابا ہر ایک کے ہاتھ پر عیدی رکھتے تو میرا ہاتھ پھیلا ہی رہ جاتا۔ جب ہر بچے کی جھولی پیار اور محبت سے بھر دی جاتی تو میری جھولی خالی ہی رہ جاتی۔ جب ابا اپنا دست شفقت سب کے سروں پر پھیرتے تو میرا سر جھکا ہی رہتا۔ صحن میں کھڑی ابا کی سائیکل جس کو اکثر میں محلے سے گزرتے دیکھتا تو ہر بار دل میں یہ خواہش ہوتی کہ کاش ابا سائیکل روک کر مجھے ایک بار، صرف ایک بار سینے سے لگا لیں مگر میری یہ خواہش، خواہش ہی رہ گی۔ گھر چھوڑنے کے عذاب کے بعد میرے اوپر ایک اور عذاب نازل ہوا جس کے کرب نے میری روح تک کو زخمی کر دیا۔ چند \’شرفا\’ گرو کے پ

About