@ba.nhatppt: ko care ớ 😝 #phamphuthuq6 #abcxyz #viralvideo

12A1
12A1
Open In TikTok:
Region: VN
Tuesday 07 October 2025 12:49:28 GMT
5688
275
28
64

Music

Download

Comments

buyn580
buyn :
nhi yen
2025-10-08 01:45:02
0
choulibee
Choulibee 🍗🍅 :
2 bạn này bén
2025-10-07 13:09:36
1
nhw_ysii
như ý :
lên luon 2 mi nơ ơiii
2025-10-07 13:04:00
1
madmath_
AM :
xu huong
2025-10-08 04:47:25
0
binthui0410
Thanh Tôn :
😀
2025-10-07 17:20:06
0
aizz9282
aizz9282 :
🥰🥰
2025-10-07 14:36:11
1
aizz9282
aizz9282 :
@HuyAkaCua
2025-10-07 14:36:22
0
aizz9282
aizz9282 :
😁
2025-10-07 14:36:10
0
aizz9282
aizz9282 :
😁🥺😁😁😁😁
2025-10-07 14:36:09
0
madmath_
AM :
#ttql 💗
2025-10-08 04:47:31
0
aizz9282
aizz9282 :
@
2025-10-07 14:36:11
0
aizz9282
aizz9282 :
.
2025-10-07 14:36:08
0
To see more videos from user @ba.nhatppt, please go to the Tikwm homepage.

Other Videos

چین اور ہنزہ کی اپنی ایک تاریخ ہے، جس کے تحت والی ہنزہ کے چین سے قریبی تعلقات تھے۔ شاکسگام وادی، جو ریاست ہنزہ کا حصہ تھی پر چین کا کنٹرول تھا مگر اس وادی کا عملی قبضہ والی ہنزہ کا تھا، جہاں ہنزہ کے لوگ اپنے جانور چرایا کرتے تھے، ہم جانتے ہیں کہ عالمی سطح پر قانونی طور پر گلگت بلتستان کا مسئلہ کشمیر کے ساتھ جڑا ہوا ہے، جو بھارت اور پاکستان کے درمیان ایک متنازع علاقہ ہے، پھر پاکستان ایک متنازع علاقے کو کسی دوسرے ملک کو کس طرح تحفے میں دے سکتا تھا؟ پاکستان کی چین کے ساتھ 523 کلومیٹر لمبی سرحد ہے، پاکستان اور بھارت کے آزاد ہونے سے پہلے برٹش انڈیا اور چین کے درمیان ایک سرحدی لکیر تھی جسے ”جانسن اینڈ مکڈونلڈ لائن“ کہا جاتا ہے، مگر چین کے نزدیک یہ لائن واضح نہیں تھی اور چین اسے تسلیم بھی نہیں کرتا تھا۔ یہ 1959 کی بات ہے جب پاکستانی حکام نے نوٹس لیا کہ چین ایسے نقشے جاری کر رہا ہے جن میں وہ علاقے جو پاکستانی کنٹرول والے گلگت بلتستان کی سرحدی حدود میں سمجھے جاتے تھے، چین نے اپنے نقشوں میں دکھایا تھا۔ اس وقت کے صدر جنرل ایوب خان نے چینی حکومت کو ایک یاد داشت کے ذریعے اس بارے میں آگاہ کیا، مگر چین نے اس کا کوئی جواب دینا ضروری نہیں سمجھا، مگر جب 1962 میں پاکستان نے چین کو سلامتی کونسل مستقل رکن کے الیکشن میں ووٹ دیا تو چین اور پاکستان کے درمیان لازوال دوستی کا آغاز ہوا اور پاکستان کے ووٹ کا شکریہ ادا کرنے کے طور پر چین نے یہ نقشے واپس لے لیے، اور دو مارچ 1963 میں چینی وزیر خارجہ اور ان کے ہم منصب ذوالفقار علی بھٹو نے معاہدے پر دستخط کیے، اس معاہدے کے تحت پاکستان اور چین نے ایک دوسرے کے قابض علاقوں سے دستبردار ہوجانا تھا اور 1899 کے برٹش انڈیا اور چین کے درمیان طے کیے گئے سرحدی لائن کو تسلیم کرنا تھا، جسے 1905 میں لارڈ کرزن نے دوبارہ تبدیل کیا تھا۔ اس معاہدے کے بعد چین نے پاکستان کا 750 مربع کلومیٹر رقبہ پر اپنا کنٹرول چھوڑ دیا اور اسی طرح پاکستان نے چین کے علاقے کا 800 مربع کلومیٹر علاقہ چھوڑ دیا، اور پاکستان نے ٹرانس قراقرم ٹریکٹ کا سارا علاقہ چین کو دے دیا جسے کارگلک کاؤنٹی بھی کہا جاتا ہے، مشہور زمانہ سیاچن گلیشئر بھی اسے علاقے کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ ماہرین کی رائے میں پاکستان نے درحقیقت کشمیر کا 5,300 مربع کلومیٹر کا رقبہ چین کے حوالے کیا، جس کو چین کو دینے کا پاکستان قانونی طور پر سرے سے روادار ہی نہ تھا، کیونکہ یہ عالمی قانون کے مطابق متنازع علاقہ ہے۔
چین اور ہنزہ کی اپنی ایک تاریخ ہے، جس کے تحت والی ہنزہ کے چین سے قریبی تعلقات تھے۔ شاکسگام وادی، جو ریاست ہنزہ کا حصہ تھی پر چین کا کنٹرول تھا مگر اس وادی کا عملی قبضہ والی ہنزہ کا تھا، جہاں ہنزہ کے لوگ اپنے جانور چرایا کرتے تھے، ہم جانتے ہیں کہ عالمی سطح پر قانونی طور پر گلگت بلتستان کا مسئلہ کشمیر کے ساتھ جڑا ہوا ہے، جو بھارت اور پاکستان کے درمیان ایک متنازع علاقہ ہے، پھر پاکستان ایک متنازع علاقے کو کسی دوسرے ملک کو کس طرح تحفے میں دے سکتا تھا؟ پاکستان کی چین کے ساتھ 523 کلومیٹر لمبی سرحد ہے، پاکستان اور بھارت کے آزاد ہونے سے پہلے برٹش انڈیا اور چین کے درمیان ایک سرحدی لکیر تھی جسے ”جانسن اینڈ مکڈونلڈ لائن“ کہا جاتا ہے، مگر چین کے نزدیک یہ لائن واضح نہیں تھی اور چین اسے تسلیم بھی نہیں کرتا تھا۔ یہ 1959 کی بات ہے جب پاکستانی حکام نے نوٹس لیا کہ چین ایسے نقشے جاری کر رہا ہے جن میں وہ علاقے جو پاکستانی کنٹرول والے گلگت بلتستان کی سرحدی حدود میں سمجھے جاتے تھے، چین نے اپنے نقشوں میں دکھایا تھا۔ اس وقت کے صدر جنرل ایوب خان نے چینی حکومت کو ایک یاد داشت کے ذریعے اس بارے میں آگاہ کیا، مگر چین نے اس کا کوئی جواب دینا ضروری نہیں سمجھا، مگر جب 1962 میں پاکستان نے چین کو سلامتی کونسل مستقل رکن کے الیکشن میں ووٹ دیا تو چین اور پاکستان کے درمیان لازوال دوستی کا آغاز ہوا اور پاکستان کے ووٹ کا شکریہ ادا کرنے کے طور پر چین نے یہ نقشے واپس لے لیے، اور دو مارچ 1963 میں چینی وزیر خارجہ اور ان کے ہم منصب ذوالفقار علی بھٹو نے معاہدے پر دستخط کیے، اس معاہدے کے تحت پاکستان اور چین نے ایک دوسرے کے قابض علاقوں سے دستبردار ہوجانا تھا اور 1899 کے برٹش انڈیا اور چین کے درمیان طے کیے گئے سرحدی لائن کو تسلیم کرنا تھا، جسے 1905 میں لارڈ کرزن نے دوبارہ تبدیل کیا تھا۔ اس معاہدے کے بعد چین نے پاکستان کا 750 مربع کلومیٹر رقبہ پر اپنا کنٹرول چھوڑ دیا اور اسی طرح پاکستان نے چین کے علاقے کا 800 مربع کلومیٹر علاقہ چھوڑ دیا، اور پاکستان نے ٹرانس قراقرم ٹریکٹ کا سارا علاقہ چین کو دے دیا جسے کارگلک کاؤنٹی بھی کہا جاتا ہے، مشہور زمانہ سیاچن گلیشئر بھی اسے علاقے کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ ماہرین کی رائے میں پاکستان نے درحقیقت کشمیر کا 5,300 مربع کلومیٹر کا رقبہ چین کے حوالے کیا، جس کو چین کو دینے کا پاکستان قانونی طور پر سرے سے روادار ہی نہ تھا، کیونکہ یہ عالمی قانون کے مطابق متنازع علاقہ ہے۔

About