@rare.arsal: وجہ سادہ ہے: طاقت کبھی تعداد میں نہیں ہوتی، وہ خون میں ہوتی ہے، وہ آنکھ کے ٹھہراؤ میں ہوتی ہے، وہ اُس خاموش وقار میں ہوتی ہے جسے دیکھ کر بڑے بڑے جھنڈ کی ٹانگیں کانپنے لگتی ہیں۔ کتّے ہمیشہ اکٹھے ہو کر حملہ کرتے ہیں کیونکہ انہیں اندر سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر تنہا آ گئے تو ایک جھپٹہ ہی ان کی نسلیں یاد رکھیں گی۔ مگر شیر؟ وہ اکیلا بھی پورا جنگل الٹ دینے کی سکت رکھتا ہے، اور وہ بھی بغیر شور مچائے۔ وہ دشمنوں کے شور سے نہیں بلکہ ان کی کمزوری سے پہچانتا ہے۔ کمزور ہمیشہ بھونکتے ہیں تاکہ اپنے خوف کو چھپا سکیں۔ اور شیر؟ وہ کبھی نہیں بھونکتا، وہ سیدھا وار کرتا ہے۔ اسے نہ جھنڈ سے فرق پڑتا ہے، نہ نسل سے۔ اس کے سامنے سب کی اصلیت کھل کر سامنے آ جاتی ہے — کچھ اپنی آواز سے، کچھ اپنی اوقات سے۔ زندگی بھی ایسا ہی جنگل ہے۔ جب تم شیر کی طرح اپنی جگہ پر اٹل کھڑے ہو جاؤ، تو تگڑی نسلوں کا غرور بھی کرچیوں میں بدل جاتا ہے۔ لوگ چاہے جتنے اکٹھے ہو جائیں، ان کی تعداد تمہاری دھاڑ کے سامنے کچھ نہیں۔ یاد رکھو: شیر کبھی ہجوم سے ڈرتا نہیں، ہجوم شیر کے وجود سے ڈرتا ہے۔ اور جس دن شیر ہلکا سا پلٹ کر دیکھ لے، پورا جنگل قدموں میں آ جاتا ہے۔ اگر چاہیں تو میں اسے مزید سخت، مزید کڑوا، یا مزید جارحانہ بھی کر سکتا ہوں۔